Quds day in Pakistan
یوم القدس کیا ہے؟
یوم القدس جسے سرکاری طور پر عالمی یوم القدس کہا جاتا ہے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو ایران میں ہر سال فلسطینیوں کی حمایت اور صیہونیت و اسرائیل کے قبضہ فلسطین کی مخالفت کا دن منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ’’یوم القدس‘‘یا ’’قدس ڈے‘‘کے عنوان سے منایا جاتا ہے اور دنیا کے سبھی حریت پسند انسان بلا تفریق مذہب و ملت اس میں شامل ہوتے ہیں۔شاید بہت سے افراد کے لئے اب بھی سوال ہوگاکہ یہ
القدس کون سا دن ہے؟
القدس کیوں منایاجاتاہے؟
القدس کی شروعات کب سے ہوئی؟
القدس کی ضرورت کیا ہے؟
اسے ہم مختصر طور پر یوم قدس کی تاریخ اور اس کے اہداف کو پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
یوم القدس کیوں منایاجاتاہے؟
آغاز یوم القدس
1948 سے جب فلسطین پر قبضہ کیا گیا، یہ مسئلہ ابتداء سے ہی اکثر دینی علماء کے مد نظر رہا ہے اور بہت ہی حساسیت کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کے خواہاں رہے ہیں۔ خود فلسطینیوں نے جب’’ جنگ کرامہ‘‘ میں صہیونیوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اس وقت بھی اکتوبر میں کسی ایک دن کو یوم فلسطین کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن اس کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔
فلسطین کی زمین اور قبلۂ اول بیت المقدس پر صیہونیوں کے ناجائز قبضہ کو70سال سے زائد عرصہ گذر چکاہے۔15مئی 1948ءکوفلسطین پرناجائز وجود پانے والی ریاست اسرائیل کوامام راحل حضرت خمینی ؒ نے مسلمانوں کے قلب میں خنجر سے تعبیر کیا اور امت کو اس کی آزادی کی راہ جہاد کی صورت دکھائی مگر خائن عرب حکمرانوں نے اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے تسلیم ہونے کی ذلت کو گوارا کیانتیجتاً ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان کس طرح دربدر ہیں۔
مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے ان اساسی اور بنیادی مسائل میں سے ایک ہے جس نے گزشتہ کئی دہائیوں سے امت مسلمہ کو بے چین کررکھا ہے ۔ ارض فلسطین جسے انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے اور بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے اس وقت سے غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے جب سے ایک عالمی سازش کے تحت برطانیہ اوراسکے ہم نواؤں کی کوششوں سے دنیا بالخصوص یورپ کے مختلف علاقوں سے متعصب یہودیوں کو فلسطین کی زمین پر بسایا گیا ۔ صہیونیوں کے اس سرزمین پر آتے ہی وہاں کے مقامی فلسطینی باشندوں کو کنارے لگادیا گیا اور آہستہ آہستہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم اس سطح پر پہنچ گئے کہ فلسطینیوں کو اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کا شہری بننا پڑا یا مجبور ہوکر انہیں وطن ترک کرنا پڑا ۔فلسطین کا مسئلہ شروع میں تو ایک علاقائی مسئلہ رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی مخلص اور مجاہد قیادت کو یہ ادراک ہونے لگا کہ دشمن صرف زمین اور علاقائی مسئلہ سمجھ کر فلسطین پر قابض نہیں ہونا چاہتا بلکہ اس کے پیچھے دینی اور نظریاتی مسائل ہیں ۔ فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے گزشتہ چھ عشروں میں کئی کوششیں ہوئیں لیکن آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔
امام خمینی (رح) ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ہی فلسطین کے مسئلے کو مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ گردانتے تھے آپ نے انقلاب کی کامیابی سے پہلے بھی فلسطین کے حوالے سے امت مسلمہ کی بیداری کے لئے کئی اقدامات انجام دیئے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تہران میں فوری طور پر اسرائیل کا سفارتخانہ ختم کرکے فلسطین کا سفارتخانہ قائم کیا گیا اور فلسطین کے مسئلے کے حل اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے نئی انقلابی حکومت نے فلسطینی قوم کی ہر طرح کی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی امداد کرنے کااعلان کیا اسی دوران امام خمینی (رح) کی دور اندیش قیادت نے فلسطین کے مسئلے کو عالمی اور تمام امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ قرار دینے کے لئے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو دنیا بھرمیں فلسطینی مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے یوم القدس منانے کا اعلان کیا ۔
غاصب صہیونی ریاست کے ناجائز قیام سے لے کر اب تک اگر اس ظالم ریاست کے ظلم و تشدد اور مظلوم فلسطینیوں پر روا رکھے جانے والے انسانیت سوز اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسرائیل نے آج تک جو کچھ کیا ہے اس کے پیچھے مغرب اور امریکہ کی بھرپور حمایت تھی ۔اسرائیل کے مظالم کے خلاف عالمی اداروں میں کئی دفعہ قراردادیں آئیں لیکن امریکہ نے کبھی بھی ان قراردادوں کو منظور نہیں ہونے دیا اگر کبھی غلطی سے کوئی قرارداد امریکہ کے ویٹو سے بچ بھی گئی تو اسرائیل نے امریکہ اور مغربی ملکوں کی حمایت کی وجہ سے اسے کبھی بھی قابل توجہ اور قابل عمل نہیں سمجھا۔امریکہ اور مغربی ممالک کی اس بے جا اور بھر پور حمایت نے اسرائیل کی غاصب صہیونی ریاست کو اتنا جری بنا دیا ہے کہ وہ نہ صرف علی الاعلان عالمی اداروں کے فیصلوں کو نہیں مانتی بلکہ ان فیصلوں اور قراردادوں کے خلاف عمل کرتی ہے۔امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت تو ممکن ہے اسلام دشمنی اور علاقے میں اپنی مرضي کی پالیسیاں مسلط کرنا ہو لیکن جو بات امت مسلم کو خون کے آنسو رلاتی ہے وہ علاقے کے عرب ممالک کے حکمرانوں کا منافقانہ رویہ ہے ۔ عرب ممالک کے سربراہوں تو اپنے ہر مسئلے کو عربوں کا مسئلہ قرار دےکر اسکے لئے شب و روز کوششیں کرتے ہیں لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کا رویہ ہمیشہ دفاعی یا انتہائي کمزور رہا ہے ۔عالمی اداروں کی خاموشی ، عرب حکمرانوں کا منافقانہ رویہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دوہرے معیار اور عالمی برادری کی عدم توجہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و وحدت اور اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے میدان عمل میں آجائے یوم القدس اس بات کا بہترین موقع ہے کہ ہم امت واحدہ کی صورت میں اپنے تمام تر فروعی اختلافات اور مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے قبلۂ اوّل کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بن جائيں ۔ یوم القدس یوم اسلام ہے اور فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں تمام عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا اہم مسئلہ، اسرائیل عالم اسلام کے قلب میں ہے۔
حضرت امام خمینی (رح )نے اپنی تحریک اور جد و جہد کی ابتدا ءسے ہی فلسطین کی آزادی کی بات اور اس پر قبضے کو ناجائز قرار دیا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسرائیل کے ساتھ رابطہ منقطع کرتے ہوئے اس کی سفارت کو فلسطینیوں کے حوالے کیا گیا۔ پھر جب اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملے کئے تو امام خمینی(رح ) نے تیرہ رمضان المبارک سنہ 1399 ہجری قمری کو درج ذیل پیغام کے ذریعے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طور پر اعلان فرمایا۔تب سے یہ آج بھی جاری وساری ہے۔
یوم القدس کہاںمنایاجاتاہے؟
ایران کے علاوہ دیگر متعدد ممالک خصوصاً عرب اور مسلمان ممالک میں بھی یوم القدس منایا جاتا ہے۔ اس دن اسرائیل کے مشرقی یروشلم پر قبضہ کے خلاف مظاہرے کیے جاتے ہیں اور دنیا بھر میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کی جانب سے ریلیاں نکال کر اس قبضے کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے۔
ہمارا پیغام!
اسی حوالےسے فلسطین فاونڈیشن پاکستان یوم القدس کانفرنس کے شرکا نے اعلان کیا کہ جمعۃ الوداع کو ملک بھر میں یوم القدس منایا جائے گا، عوام یوم القدس اجتماعات میں بھرپور شرکت کریں۔ عرب دنیا کے اسرائیل کیساتھ تعلقات فلسطین اور مسلم امہ کیساتھ خیانت ہے، فلسطین پر صہیونی غاصبانہ تسلط کے خاتمہ تک جد وجہد جاری رکھیں گے۔
مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ ہے اور اسرائیل عالم اسلام کے قلب میں خنجر کی مانند ہے۔
0 تبصرے